کون زخموں میں اتارے آنسو
میری قسمت میں ستارے آنسو
بجھ گئے آنکھ کنارے آنسو
اب میں معذور نہیں ہوں فرحت
آنکھ لاٹھی ہے، سہارے آنسو
وہ جو جل جاتے رہے خواب مرے
بن گئے ہونگے شرارے آنسو
جب تلک رو نہ پڑوں میں کھل کر
گرتے رہتے ہیں اشارے آنسو
ایک بھی ہم نے بچا رکھا نہیں
دے دیے آپکو سارے آنسو
ہو گئے پیلے نہ جانے کیسے
سرخ کتنے تھے ہمارے آنسو
اتنے ارزاں ہیں کہ بس کچھ نہ کہو
یہ مرے درد کے مارے آنسو
خون ہو جانا تھا بھاری فرحت
کیوں وریدوں سے گزارے آنسو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)