ابھی بہت وقت ہے
میں تمہارے خواب رہ جانے والے خوابوں کو
اپنی بینائیوں سے تعبیر کروں گا
تمہاری خواہش رہ جانے والی خواہشوں کو
اپنے لہو سے تعمیر کروں گا
تمہارے خیالوں کے پاؤں چھو چھو کر
تمہاری سوچوں کی آنکھیں چوم چوم کے
تمہاری انگلیوں کی پوریں اپنی پیشانی سے مس کر کر کے
بستیاں بساؤں گا، شہر آباد کروں گا
سلطنتیں قائم کروں گا
ایک دنیا، ایک کائنات تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا
میں نے سوچا تھا
کبھی تمہارے گلے لگ کے
خوشی سے چہک اٹھوں گا
کبھی تمہارے کندھے سے لگ کے بہت روؤں گا
تمہاری گود میں سو جاؤں گا
تمہیں مہندی لگاؤں گا
اور تمہاری آنکھوں میں کاجل ڈالوں گا
تمہاری مانگ سجاؤں گا
تمہارے لیے اچھے اچھے کپڑے خرید لاؤں گا
تمہارے لیے ایک تخت بنواؤں گا
اور اپنا تمام بخت تمہارے تخت کے پیروں میں لا رکھوں گا
میں نے سوچا تھا
ابھی بہت وقت ہے
ابھی بہت وقت ہے
وقت کسی آہنی بلا کی طرح
میرے دل سے ٹکراتا ہے
میرے خون کی زنجیر کو پکڑ کر جھٹکے دیتا ہے
میری روح کا گریبان پھاڑتا ہے
میری آنکھوں میں راکھ بھر دیتا ہے
مجھے مارتا ہے
پھر مارتا ہے
پھر مارتا ہے
اور ریت پر بکھیر دیتا ہے
فرحت عباس شاہ