رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے
ہمیں غصہ آتا ہے
بہت سہارتے ہیں تو جنجھلا جاتے ہیں
اور بے بسی سے روہانسے ہو جاتے ہیں
اور آنسوؤں سے لبا لب بھرے ہوئے کٹوروں کے باوجود
ہنس دیتے ہیں
جیسے کسی نے عمر قید کاٹنے والے کسی کو
ہنسنے کی بیگار پر لگا دیا ہو
رات ہم سے دیر تک ناراض رہتی ہے
اور ہمارے سینے پر
بھاری بھرکم سوچیں لا دھرتی ہے
اور ذرا دور کھڑی ہو کر
ہماری طرف نوکیلے اور سخت خدشے اچھالتی ہے
اچھالتی کیا ہے زور سے دے مارتی ہے
ہمارے آنسوؤں کو اندر سے ہمارے دل سے باندھ دیتی ہے
سانسوں کی بھیگی ہوئی رسیاں کستی چلی جاتی ہے
رسیاں بار بار کھینچتی ہیں
دل بار بار ڈوبتا ہے
دل بار بار ڈوبتا ہے رات پھر بھی ہم سے ناراض رہتی ہے
رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)