نثری غزل

نثری غزل
میں نے سوچا تھا ویرانی عارضی ہے
اور کسی نہ کسی دن ہوا ہو جائیں گے
غم اور بیگانگی
مجھے گمان بھی نہیں تھا
شہر اس قدر اجڑ جائے گا
اور یہاں فدا ہو جائیں گے
غم اور بیگانگی
ہم اتنے اذیت پسند تو ہر گز نہ تھے
لیکن شاید اگر ہم کوئی جنگل ہیں
تو بادِ صبا ہو جائیں گے
غم اور بیگانگی
میں ایک مستقل ویرانی ہوں
اور میرا دل کوئی اجڑا ہوا مندر ہے
میرا کیا بنے گا اگر مجھ سے کبھی
خفا ہو جائیں گے
غم اور بیگانگی
مجھے پتہ نہیں تھا یہ میری نس نس میں اتریں گے
میرے لہو کو جلائیں گے
میری روح کو ان کی عادت ہو جائے گی
اور میرے لیے کیا سے کیا ہو جائیں گے
غم اور بیگانگی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *