نکل پڑے تھے کبھی ہم بھی حوصلہ کر کے

نکل پڑے تھے کبھی ہم بھی حوصلہ کر کے
سفر تمام ہوا ہے خدا خدا کر کے
نصیب سوئے رہے لوگ باگ کھوئے رہے
فقیر لوٹ گیا شہر سے صدا کر کے
بھٹکتا دیکھ ہمیں آسمان ہے مسرور
زمین خوش ہے بہت راستے جدا کر کے
یہ کس طرح کی عقیدت ہے شہر والوں کی
مناتے پھرتے ہیں پہلے ہمیں خفا کر کے
سفر کی موت سے لگتا ہے ہو گئی ہے قبول
چلے تھے گھر سے کسی درد کی دعا کر کے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *