تو پھر کس کام کی آہٹ، تو پھر کس کام کی آہٹ
ہمیشہ رات ہوتے ہی ہمارے دل کی گلیوں میں
مسلسل ہوتی رہتی ہے تمہارے نام کی آہٹ
دنوں پر بند ہیں یارو ہمارے دل کے دروازے
ہمارے دل پہ بجتی ہے ہمیشہ شام کی آہٹ
نہ جانےروح میں یہ چہل قدمی کون کرتا ہے
چرا لایا ہے جانے کون تیری شام کی آہٹ
ہمارا درد اک دن شہر کی سڑکوں پہ گونجے گا
جگائے گی زمانے کو دلِ بدنام کی آہٹ
ترا ہی ظلم مجھ کو وقت سے پہلے بتائے گا
سنائی دے گی مجھ کو بھی ترے انجام کی آہٹ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)