ہم کئی بار ہوئے ہیں مایوس
اپنے ہی آپ سے مایوس ہوئے
کیا عجب خود سے نگاہیں نہ ملا سکنے کی خفت ہے کہ جاتی ہیں نہیں
کھینچ کر باندھ سی دیتی ہے نگاہوں کو لرزتے ہوئے پیروں سے
کئی گھنٹوں تک
اور دل میں کئی نوکیں سی چبھو دیتی ہے
شرمساری کسی مٹی ملی بارش کی طرح
سارے احساس بھگو دیتی ہے
کونوں کھدروں میں پڑی ذات کی کمزوری بھی لیتی ہے حساب
عجلتیں کتنا گھٹا دیتی ہیں اکثر ہم کو
عجلتیں بھی کسی دیوانے کی
اور ناکامی سے ٹکرا کے پلٹ آنے کی بے رنگ اذیت
کہ ٹھہر جاتی ہے شریانوں میں
دیر تک رہتی ہے نادانوں میں
اور جو کنپٹیوں پہ آ لگتی ہے گھبراہٹ سی
اور جو اک جال سا آپڑتا ہے دل پر کسی جھنجھلاہٹ کا
اور جو مٹھی میں کوئی سانس جکڑ لیتا ہے
اور جو اندر سے کوئی سانس پکڑ لیتا ہے
ہم کئی بار ہوئے ہیں مایوس
اپنے ہی آپ سے مایوسی عجب ہوتی ہے
فرحت عباس شاہ