نئے سورج کہاں ہو تم؟
پرانی رات سر سے ٹلتے ٹلتے رک گئی ہے
پھر وہی پچھلی اداسی
پھر وہی سائے قیامت کے
نئے سورج تمہیں کیا ہو گیا ہے
رات سے کیا رازداری ہے تمہاری
ہم تو تھک ہارے
اندھیرے کا سراپا پیٹنے ہاتھوں میں گانٹھیں پڑ گئیں ہیں
اور آنکھوں میں کسی غمناک ویرانی کا ڈیرہ ہے
نئے سورج
ہمارے دل ہماری پسلیوں میں پھڑ پھڑا کر چیختے ہیں
روح قبروں کے کناروں پر پڑی مٹی کی ڈھیری کی طرح کچھ بھی نہیں کہتی
ہوا گم سم کھڑی روئے چلی جاتی ہے
بولو بھی
نئے سورج کہاں ہو تم
تمہیں یہ بھی بتانا ہے
نگر میں
سیاہ دیواروں پہ ماتھا ٹیکنے والے بہت خوش ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)