دُعا کو ہاتھ اٹھائیں
تو دل لرزتا ہے
کہ پڑ نہ جائے خود اپنی نظر وہاں کہ جہاں
نصیب لکھا گیا پتھروں کے حرفوں سے
ہتھیلیوں کی لکیروں کے سیہ خلاؤں میں
کبھی شبوں کے کسی کربناک لمحے میں
کوئی کراہ جو آجائے بھول کر لب پہ
تو ہول ہول سے جاتے ہیں حوصلے سارے
کہ تار تار سماعت کے زخم پہلے ہی
دُکھے ہوئے ہیں صداؤں کی نارسائی سے
کِسے بتائیں کہ جیون کے کارزار میں ہم
عجیب ہارے ہوئے لوگ ہیں کہ ہر لمحہ
شکستِ ذات کی تصویر میں مقید ہیں
جنم لیا ہے تو اب تک کئی زمانوں سے
ہم ایک طے شدہ تقدیر میں مقید ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)