ہجر کی شام ڈھلی
درد کی شاخ پہ اُگ آئے بدن آہوں کے
کانپتا اور لرزتا جنگل
سرسراتی ہوئی یخ بستہ ہوا
رات کے ڈھلتے ہوئے سائے کہ یوں نیم دراز
جیسے گاؤں میں کسی شخص کے سوئم پہ بلائے گئے افسردہ عوام
چند گھڑیوں کا مہیمان مسافر سورج
پیلے چہرے ہی لیے خوف کسی مشکل کا
رات کے پھیلے ہوئے دامن میں
غیر محسوس طریقے سے اترتا جائے
ایک بیمار
کسی وحشت و ویرانی میں
ریت بن بن کے بکھرتا جائے
ہجر کی شام ڈھلی
ہجر کی شام ڈھلی
آس کہیں دور
بہت دور چلی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)