تُو مِری خواہش و خواب کے اُس طرف
اختیارات سے اِس قدر دور
میں اِس طرف
اپنے حالات کے پتھروں کے تلے
کوئی بتلائے
اس درمیاں میں کہیں واسطہ کیوں نہیں
میری آنکھوں پہ پلکوں کی دیوار
ہونٹوں کا ساکت مقفّل دریچہ
خیالوں کا ویران گھر
ابروؤں پر جما درد اور درد کا اک تسلسل
کسی ہول کی زد میں آیا ہوا دل
مرے ذہن کی سطحِ حسّاس پر رینگتی بے بسی
تنگ و تاریک کمرہ
شکستہ خموشی
دراڑیں بلکتی ہوئیں
آرزوئیں سلگتی ہوئیں ۔۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔
اُف ۔۔۔ یا خدایا
یا خدا راستہ کیوں نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)