تری خموشی تری بات بھی بسر کرتے
اے آفتاب یہ حسرت رہی ہماری کہ ہم
تمہارے ساتھ کوئی رات بھی بسر کرتے
تمام عمر برستا تمہارا ہجر اگر
ہمارے نین یہ برسات بھی بسر کرتے
مرا وجود بسر کر رہے تھے سب مل کر
مزا توجب تھا مری ذات بھی بسر کرتے
ہم آدھے درد کہیں دور بھی بتا آتے
ہم آدھے درد ترے ساتھ بھی بسرکرتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)