وہ اسے ڈھونڈتا رہتا
اور تھک ہار کر اور زیادہ بے چین ہو جاتا
ہو روز جب شام ڈھلتی
وہ سب سے آنکھ بچا کے
آنگن کی پچھلی دیوار کے پاس
اُگے ہوئے خود رو پودوں
کی جڑوں میں زمین کھودتا
قبر بناتا اور اپنا ایک کھلونا دفن کر دیتا
اُف۔۔۔ میرے خدا
ہوائیں بین کر اٹھتی
اور شام تڑپ کے رہ جاتی
وہ آدھی آدھی رات کو بستر پر اٹھ بیٹھتا
اور گہری خاموشی سے
اپنے اندر ایک گہری غار کھودتا اور اپنا آپ اس میں دفنا دیتا
اور محبت محبت پکارتا رہتا
محبت، کائنات کی نبضوں میں دھڑکنے والی قوت
خدا کے لہجے میں بولنے والی قدرت
زمین کا سینہ چیر کے اُگ آنے والی زندگی
محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ