پاس میرے کوئی امکان تو ہے آخر کار
یہ کہ مجھ سا کوئی معمولی اسے جھیل گیا
حادثہ آپ بھی حیران تو ہے آخر کار
ہم کسی وقت بھی پٹڑی سے اتر سکتے ہیں
دل ہمارا ہے، پہ نادان تو ہے آخر کار
مجھ کو کمزور سمجھتے ہوئے روندا سب نے
یہ نہیں سوچا کہ انسان تو ہے آخر کار
اک اسی بات نے گھر کو مرے گھر رکھا ہے
اور کچھ بھی نہیں ویران تو ہے آخر کار
میں جو چاہوں بھی تو کیا دُور رہوں گا تجھ سے
تو مری جان، مری جان تو ہے آخر کار
فرحت عباس شاہ