ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح

ہر گھڑی اک گونجتا وجدان ہے سنسان جنگل کی طرح
بندگی بھی کونسی آسان ہے سنسان جنگل کی طرح
راستے میرے بھی صحرا کی طرح اس کو سمجھ آتے نہیں
آنکھ اس کی بھی بہت انجان ہے سنسان جنگل کی طرح
آس کے پیلے اُفق پر کیوں کوئی چہرہ کبھی اترا نہیں
کیوں مری دہلیزِ دل ویران ہے سنسان جنگل کی طرح
کوئی بھی لمحہ اگل سکتا ہے خاموشی پرانے خوف کی
دل کے عالم سے بھی یہ امکان ہے سنسان جنگل کی طرح
اس میں بھی رہتے ہیں کالی شب ہوا کی سائیں سائیں اور ڈر
شہر تو کیا شہر کا انسان ہے سنسان جنگل کی طرح
جانے کتنے راہ گم کردہ سفیر آئے مرے اور مٹ گئے
روح میں بھی ایک قبرستان ہے سنسان جنگل کی طرح
کیا خبر کس کنج میں کیسی ستمگر گھات لیٹی ہو کہیں
زندگی بھی ایک امتحان ہے سنسان جنگل کی طرح
روح کے سچ پر ہی کھل سکتے ہیں طاقتور مظاہر عشق کے
یہ بظاہر تو بہت بے جان ہے سنسان جنگل کی طرح
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *