دل کی بستی سے کوئی اور جنازہ نہ اُٹھے
شہر کو دکھ کے تسلط میں بہت دیر ہوئی
آسماں اترے، نہ کچھ اور کمک آئی کسی دنیا سے
آسماں ساری جگہ ہے لیکن
خاک کی اپنی ہی رنگینی ہے
خوف سے زرد پڑے، خون سے رنگیں ہو جائے
سبز ہو جائے یا پیلی پڑ جائے
آسماں رحم کرے یا نہ کرے
یا کہ پھر اور بھی سنگیں ہو جائے
فرحت عباس شاہ