مرے خدا مرا ہر حوصلہ بحال رہے
وہ جانتا ہی نہیں غم ہے کیا تسلی کیا
وہ غم سے گزرے تو اس کو ترا ملال رہے
کبھی کسی کی محبت کا دکھ کبھی اپنا
اسیر صورت حالات سارا سال رہے
تعلقات کی نومیتیں کھلیں گی بہت
جو ایک بار اگر موسمِ زوال رہے
مری کتاب جلانے سے تم کو کیا حاصل
تم اس طرح تو مجھے ذہن سے نکال رہے
فرحت عباس شاہ