دیکھیے کیا خوب سوجھا، حاشیہ زنجیر کا
کام سر انجام دیتا ہے کسی شمشیر کا
فرد میں دل اور دل میں وسوسہ تعزیر کا
میں نے دیکھا زندگی کچھ بھی نہیں اس کے سوا
ایک رخ میرا ہے مجھ میں دوسرا تصویر کا
ورنہ تو سادہ ہی تھا ہر صفحہء سود و زیاں
جانے کس پہ شائبہ ہوتا رہا تحریر کا
اک ذرا سی آنکھ لگتی ہے تو بج اٹھتا ہے خوف
نیند میں دھڑکا لگا ہے نیند کی تعزیر کا
پڑ گئی ہے عقل رازِ بیکراں کی راہ پر
ہر قدم پر ڈوبتا جاتا ہے دم تدبیر کا
زخم ضبطِ رائیگاں سے بڑھ گیا رنج و ملال
ہو گیا قائل زمانہ لوٹ کے تقدیر کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)