تمہاری ذات تک پھیلا ہوا ہوں
ہجومِ شہر میں تم سے بچھڑ کر
میں اپنے آپ سے بھی کب ملا ہوں
تمہاری جستجو ہے اک مسافر
میں لا امکان تک کا راستہ ہوں
ہزاروں راز پوشیدہ ہیں مجھ میں
تنِ تنہا بھی میں اک قافلہ ہوں
تمہاری بندگی جانے کہاں ہے
میں اپنی بندگی کی انتہا ہوں
مجھے اپنا بھی کچھ کچھ دھیان ہے اور
میں تیرے واسطے بھی سوچتا ہوں
مجھے کب کا چلے جانا تھا لیکن
کسی کے واسطے ٹھہرا ہوا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)