کہہ گئے ہیں جواب میں کیا کیا
دیکھنے والے اک ترے باعث
دیکھتے ہیں گلاب میں کیا کیا
اس لیے ہم نہیں کہ گنتے رہیں
خوبیاں ہیں جناب میں کیا کیا
آنکھ خود اپنے ہی فریب میں ہے
سوجھتا ہے سراب میں کیا کیا
اس کی تصویر بھی ہے سوچیں بھی
مل گیا ہے کتاب میں کیا کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)