آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے ہم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے
ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول
محبت کی فضا
ہم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساختہ درشن سے ترے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے
وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد
ہم بہت دیر سے گھر آتے تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو
ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ہوئے رستوں پہ لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے؟
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے
فرحت عباس شاہ