آنکھ کے پار کسی روئی ہوئی یاد کی خاموش زدہ تصویریں
پھڑ پھڑاتی ہیں بہت بے آواز
شہر سے کٹ کے بھی تنہائی نہیں جاتی تو روپڑتے ہیں
کتنے آزردہ ہیں افسانے مرے
گمشدہ بچوں کی مانند بہت سہمے ہوئے
دل بھی کھویا ہوا اک بچہ ہے
اجنبی لوگوں کے چہروں کی طرف تکتا ہوا
ایک گھبرائی ہوئی حیرت سے
خوف کی ماری ہوئی غیرت سے
صبر کے ساتھ اگر زندہ رہا جا سکتا
کربلا میں نہ کوئی مر جاتا
صبر کے ساتھ اگر زندہ رہا جا سکتا
زہر پینے کی ضرورت ہی نہ رہتی باقی
معجزے ہوتے نہیں
حادثے روز ہی ہو جاتے ہیں
المیے ساتھ لگے رہتے ہیں
بدنصیبی کا کوئی ذکر نہیں
تم ہمیں ملتے تو خوش ہو جاتے
تیرے ایذاؤں کے رسیاؤں کو تسکیں ملتی
موت ہی موت کا پس منظر ہے
فرحت عباس شاہ