صاف شیشے کی طرح
اجلے ضمیروں کی طرح
کالکیں گرتی ہیں ویران مساجد سے گنہگاروں کی
داغ اڑتے ہیں فضاؤں میں نگر والوں کے
لوگ ملتے ہیں گناہوں کے لیے
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
وہ جدائی جو اڑاتی ہے مزاق
وہ جدائی جو ڈراتی ہے
شکستہ بھی کیے جاتی ہے
کھینچ لے جاتی ہے آلودہ بہانوں کی طرف
ہم نے حیلے بھی کیے ہیں تو فقط چاند کے بہلانے کو
رات کچھ دیر کے سو جانے کو
درد کی ایسی فضیلت نہیں مانی
جو ہمیں توڑ کے ہی رکھ دیتی
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
صاف پانی کی طرح
اجلے لباسوں کی طرح
ہم نے ہر رنگ کے داغوں سے کیا ہے پرہیز
ورنہ تم کونسا نزدیک تھے جو
تم کو گلہ کرنے کا موقع ملتا
ساری باتیں تو الگ اتنا مگر یاد ہے
یہ کوئی اتنا بھی آسان نہیں ہے لیکن
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
فرحت عباس شاہ