اور پھر دار پر چڑھائے گئے
زندگی موت ہے کچھ ایسے میں
ایک پل میں ہزار آئے گئے
نین بھی کیا غضب کے تھے معصوم
جانتے بوجھتے رلائے گئے
جشن ہجراں تھا میرے کمرے میں
زخم دیوار پر سجائے گئے
باوفا تھے اسی لیے شاید
ہم کئی بار آزمائے گئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)