گلی سے گلی کے بیچ ہزاروں تھل پڑتے
جانے کیسی گرمی اس کے حسن میں تھی
کتنے پتھر دل یکلخت پگھل پڑتے
اجڑے ہوئے گھروں کے دیپ تھے بجھے رہے
تیری آنکھوں میں ہوتے تو جل پڑتے
تیری یاد سمندر دل میں گرتے ہی
کتنے نہروں جیسے درد اچھل پڑتے
کہنے اور نہ کہنے میں سب بکھر گیا
تم کہتے تو ہم بھی شاید چل پڑتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)