اداس ہو گیا سفر
کھلی ہوئی کلی بھی رو پڑی لبِ حصارِ غم
فشار غم بتا گیا
خیالِ خام زندگی
یہ صبح صبح موت سی
یہ شام شام زندگی
نفس نفس کہ زیر بار آ گیا فراق میں
ذرا چلے تو پھر غبار آ گیا فراق میں
کہ جیسے منچلا شکار آ گیا مچل کے پھر فریبِ اشتیاق میں
یہ جال جال زندگی
کہیں سکوت زندگی کہیں ملال زندگی
وصال بھی کڑا عذاب دے گیا زوال میں
ہر ایک چال رائیگاں گئی میرے کمال کی
کسی کے سائے سے لپٹ
کسی ستون سے چمٹ
کسی نحیف پر جھپٹ
کسی محاذ سے پلٹ
یہ بام بام زندگی
خود آگہی کا شوق بھی ہے
دھیان میں رچا ہوا
تو بے حسی کا رنج بھی
نصیب میں بسا ہوا
اگر کبھی ذرا سی بے خودی کسی فرار سے
ادھار لے کے آ گئے
تو ڈر گئے
لگا کہ جیسے مر گئے
سبو کہیں تو پینے والے لب کہیں پہ دھر گئے
یہ خوف خوف روح میں
یہ بے بسی یہ بے بسی
یہ اشک اشک مے کشی
یہ جام جام زندگی
ٹھٹھک ٹھٹھک گیا سماں
خموشیاں خموشیاں
کسی کے رُخ پہ ایک پل بھی ٹکٹکی نہ جم سکی
برس گئی جو چشم دل
تو دل سے بھی نہ تھم سکی
شب پناہ آہ میں نہ جانے کب بدل گئی
دھواں دھواں
کنواں کنواں
ہر ایک سینہ فگار کی پکار سوختہ
شکستہ چیخ بسملِ ضعیف کی جگہ جگہ
سحاب جاں
حجاب من
کتاب دل
شباب سے سراب تک
یہ خواب خواب زندگی
نظر نظر سفر سفر
گلی گلی سفر سفر
نگر نگر سفر سفر
تھکے تو آپ رو پڑے
جو گر پڑے تو آسمان کی طرف نگہ اٹھی
وہ دور دور تک خلا
خموش آسماں کے جیسے اس پہ رہنے والے لوگ شہر ہی بدل گئے
اگرچہ کچھ ہی دیر بعد مضمحل سنبھل گیا
مگر وہ کیا کہ پہلوئے حسابِ اعتماد میں
کوئی نشاں پگھل گیا
یقیں کی کائنات سے کوئی جہاں نکل گیا
کبھی یقین زندگی کبھی گمان زندگی
سبک سبک ہوائے صبح
مدھر مدھر صدائے شب
چھنن چھنن ردائے دل
ہوا ہوا خیال سب
جدا جدا ملال سب
خدا خدا سوال سب
کبھی تو شاہ زندگی کبھی غلام زندگی
یہ صبح صبح موت سی یہ شام شام زندگی
یہ شام شام زندگی
یہ شام شام زندگی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)