ہم مسافر ہیں مری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آجاتے ہیں
ہم مسافر ہیں
کرایوں کو ترستے ہوئے خیموں میں گھرے
گھر سے گھبرائے ہوئے یونہی ہوا کرتے ہیں
اجنبی شہروں کے وہموں میں پڑے
خوف اور عدم تحفظ سے چراتے ہیں نگاہیں
تو کہیں اور ہی جا پڑتے ہیں
کب تلک کون ہمیں رکھے گا مہمان محبت کے سوا
اور کسی روز ہمیں یہ بھی کہے گی کہ خدا ہی حافظ
ہم جو لوگوں سے جھجکتے ہیں تو مجبوری ہے
ہم جو رستوں میں بھٹکتے ہیں تو محصوری ہے
ہم مسافر ہیں مری جان مسافر تیرے
ہم اگر تجھ سے بچھڑتے ہیں تو مہجوری ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)