ہم نے جس رات ترے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے
چاند حیران ہوا ہے
کہ بھلا کون چمکتا ہے افق کے اس پار
ہنس دیا کوئی ستارہ، جو کبھی پلکوں پر
کہکشاں چونک اٹھی
کون کہاں ٹوٹ گرا
ہم نے جس رات تری یاد کی دہلیز پہ ویرانی رکھی
درد میں لپٹی ہوئی ویرانی
آسماں بول پڑا
کون ہوا اتنا اداس
کس نے اندوہ کی بارات میں حصہ ڈالا
کس نے رنگین کیا زخموں کو
ہم نے جس رات تری آس کی دہلیز پہ دل رکھا ہے
کتنے مرجھائے ہوئے پھول مہک اٹھے ہیں
کتنے کملائے ہوئے پیڑ لہک اٹھے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)