دیکھتے دیکھتے جنگل کی ہوا ہو جائیں
یہ بھی ممکن ہےکہ وہ خوش رہیں ہم سے تا عمر
یہ بھی ممکن ہے کہ پل بھر میں خفا ہوجائیں
میرے بس میں ہو تو میں اور بھی عاجز ہو جاؤں
اُن کے بس میں جو اگر ہو تو خدا ہو جائیں
یہ توقع تو نہ تھی تیری عدالت سے مجھے
رات اور دن ہی مرے مجھ کو سزا ہو جائیں
سب تیرے باغ کے صدقے ہے مری ہریالی
سرد آہیں بھی مری باد صبا ہو جائیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)