ہم نے کچھ روز میں مر جانا ہے
ہم تو مہمان ہیں
اور لوٹ کے گھر جانا ہے
بے بسی یہ ہے
کہ مرضی سے نہ آئے نہ گئے
زندگی کیا ہے اذیت کا مسافر ہے کوئی
جس کو ہر گام پہ ڈر جانا ہے
قافلہ ہے کوئی مجبوروں کا
ہر پڑاؤ پہ بکھر جانا ہے
آنسوؤں کا کوئی دریا ہے جسے
چند لمحوں میں اُتر جانا ہے
فرحت عباس شاہ