کسی کو کیا کہ کوئی حرف زیرِ لب آئے
میں دکھ میں تھا تو اکیلا تھا پوری بستی میں
میں سُکھ میں ہوں تو مرے آس پاس سب آئے
تمہارے بن تو میں پڑھ لکھ کے بھی گنوار رہا
تم آگئے تو مجھے زندگی کے ڈھب آئے
میں ان کے ہجر میں بیمار تھا تو آتے تھے
پھر اس کے بعد مجھے پوچھنے بھی کب آئے
اسے کہو کہ وہ مل جائے تو میں خود سے ملوں
اسے کہو کہ وہ آئے تو میرا رب آئے
فرحت عباس شاہ