جہاں دیکھو وہاں بکھرا ہوا ہے
نئی کیا بات ہو سکتی ہے دکھ میں
یہ سارا کچھ مرا دیکھا ہوا ہے
ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
وہی کچھ ہے کہ جو لکھا ہوا ہے
ذرا سی دیر ٹھہرا تھا وہ بادل
یہ لگتا ہے ابھی ٹھہرا ہوا ہے
تمہاری آنکھ برسی ہے تو ہو گی
مگر میرا تو دل ترسا ہوا ہے
تمہارے ہاتھ میں رونق ہے کوئی
تمہارا خط بہت سلجھا ہوا ہے
زمانہ چاند جا پہنچا ہے اور تُو
ابھی تک خار سے الجھا ہوا ہے
کئی صدیوں ہی سے دریا ہے یہ دل
کئی صدیوں ہی سے ترسا ہوا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)