اداسی کتنی مائل ہو گئی تھی
لگا جیسے سمندر آ پڑے ہیں
ذرا سی بات حائل ہو گئی تھی
وہ جب سانسوں میں تیری خوشبوئیں تھیں
ہوا اس رات سائل ہو گئی تھی
قدم بجنے لگے تھے گھنگھروؤں سے
زمیں پاؤں میں پائل ہو گئی تھی
اسے دکھ میں ذرا دیکھا تھا فرحت
ہماری روح گھائل ہو گئی تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)