چارہ گر کوئی بھی نہیں اب تو
یار کتنے تھے اچھے وقتوں میں
ہاں مگر کوئی بھی نہیں اب تو
میں نے دل کو ترے حوالے کیا
مجھ کو ڈر کوئی بھی نہیں اب تو
شہر میں تیرا چاہنے والا
تھا مگر، کوئی بھی نہیں اب تو
دل کی سب نرمیاں تمام ہوئیں
چشمِ تر کوئی بھی نہیں اب تو
زور ور لوگ باگ ہیں لیکن
دیدہ ور کوئی بھی نہیں اب تو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)