پرندوں کی طرح ہم بھی گھروں کو لوٹ آتے ہیں
توقع تھی کہ کوئی لوٹ کر آئے گا جیتے جی
مگر یہ لوٹنا اور موت آ جانا اچانک ہی
سمندر سے کبھی پوچھو تمہیں رو کر بتائے گا
کوئی ایسا نہیں تھا جو تلاطم کو سمجھ پاتا
تمہیں اپنے کسی سکھ کا نشہ ہو گا مگر یارو
ہمیں بھی ناز ہے اپنے دکھوں کی دلربائی کا
مری دیوانگی وہ دیکھ آئی ہے کہ فرحت جی
تمنا کی مسافت اب مسافت ہی نہیں لگتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)