ہمیں ایک درد رہے تو پھر بھی کہیں کہ ہاں

ہمیں ایک درد رہے تو پھر بھی کہیں کہ ہاں
یہ جو صبر ہے یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے
اسی عاشقی کی فضائے عجز و غرور میں
اک عجیب ردوقبول تھا میں جہاں گیا
مجھے شہر بھر سے ملے ہیں تنگ سے دائرے
مرا شہر بھر سے معاملہ تھا خیال کا
یہ عروج ہے تو ذرا بتاؤ نہ جان جاں
تجھے آرزوؤں سے کیا گلہ ہے عروج میں
کوئی انتظار تھا زندگانی طویل تر
کوئی مختصر سی خوشی بھی تھی کہیں بیچ میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *