خواب تاریک ہیں
اور دلوں میں کہولت زدہ خامشی بس گئی ہے
کبھی تارکول اور ہتھر کے رستے
گھسٹتے ہوئے سرد قدموں سے
مڑتے نہیں
کھوکھلے بازوؤں سے خلاؤں میں ماحول بنتا نہیں
آنکھ میں دم نہیں کہ مناظر کی آنکھوں سے دوچار ہو
جسم کے سب مساموں کے سوراخ بند ہو چکے ہیں
غموں کی سلوں سے
بدن قبر سے بھی ہے بھاری
برے وقت نے تیری جانب سے مجھ پر جو حملے کیے ہیں
ابھی میں انہی کے گرائے ہوئے ایک ملبے تلے دفن ہوں
گر تمہیں مجھ سے بے لوث جذبوں کی اب بھی توقع ہے
تو یوں کرو
اپنے رب سے دعائیں کرو
کہ مجھے ماضیوں میں بسے عاشقوں کے کسی
شہر نادان میں بھیج دے
جس جگہ سارے مٹی کے مادھو، مگن، مست، بے حال مجنوں
ہوائیں فضائیں خدوخال اور اپنے گھر بار تک بھول کے
جان و دل سے ترے منتظر ہوں
وگرنہ مری جاں ہمیں تو
خود اپنے دکھوں سے ہی فرصت نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)