ایسے قائل نہیں بہار کے ہم
یاد ہے ایک دن مصیبت میں
رو پڑے تھے تجھے پکار کے ہم
اُن سے کہہ دو کہ صاف بات کریں
اتنے عادی نہیں غبار کے ہم
اپنی شادابیاں گنوا بیٹھے
ہو گئے تیرے انتظار کے ہم
آپ ہی اپنے دل کو فتح کریں
آپ ہی اپنے دل سے ہار کے ہم
چار ہی دن ملے تھے جیون کے
چل پڑے چار دن گزار کے ہم
سر خرو ہو گئے محبت سے
اپنے سینے میں غم اتار کے ہم
دشمنِ جان کو بھی فرحت جی
غمزدہ ہی ہوئے ہیں مار کے ہم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)