ورنہ اتنی نہیں تھی رات طویل
بڑھتے جاتے ہیں آخری لمحے
کس نے کر دی ہے کائنات طویل
رہگزر بھی ہے تیرے دکھ کی طرح
ہوتی جاتی ہے ساتھ ساتھ طویل
اس لیے لوٹنے میں دیر ہوئی
ہو گئی تھی کسی سے بات طویل
روز مرہ مصیبتوں کے طفیل
مل گئی ہم کو اک حیات طویل
مختصر تھیں رفاقتیں لیکن
سلسلہ ہائے واقعات طویل
فرحت عباس شاہ