آنگن میں اتر آتی ہے اک رات انوکھی
بس ہٹ کہ ذرا سوچنے والا ہی تو ہوں میں
لگتی ہے زمانے کو مری بات انوکھی
جب خواب سی لہرا کے تُو ٹکرائی تھی مجھ سے
بھولی نہیں مجھ کو وہ ملاقات انوکھی
ہر روز مجھے لگتی ہے ٹھوکر کسی غم سے
ہوتی ہے یہ کیوں روز مرے ساتھ انوکھی
روتی ہیں گھٹائیں تری یادوں سے لپٹ کر
ہوتی ہے مری آنکھوں میں برسات انوکھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)