ہے کسی ظالم عدو کی گھات دروازے میں ہے

ہے کسی ظالم عدو کی گھات دروازے میں ہے
یا مسافت ہے نئی یا رات دروازے میں ہے
اس طرف جذبے برہنہ پیٹھ ہیں اور اُس طرف
ہاتھ میں چابک لیے برسات دروازے میں ہے
بٹ گئے ہیں یوں کسی کو الوداع کرتے ہوئے
لوٹ آیا ہے بدن پر ذات دروازے میں ہے
جس طرح اٹھتی ہیں نظریں بے ارادہ بار بار
صاف لگتا ہے کہ کوئی بات دروازے میں ہے
موسموں نے کاٹ ڈالے ہیں ہمارے راستے
دھوپ ہے کمرے میں اور برسات دروازے میں ہے
جانتے ہیں دے رہی ہیں دستکیں خاموشیاں
کس طرح نکلیں کہ دل کی مات دروازے میں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *