لمحہِ مشکل
ناکافی روشنی بینائی کو تنگ کرتی ہے
زیادہ دھوپ
زیادہ سردی کی طرح ہوتی ہے
اور نا کافی اندھیرا مکمل سکون نہیں دے سکتا
میں تمہاری محبت کی زیادتی
اور تمہارے ناکافی وصل میں گھر گیا ہوں
دو پہاڑ آہستہ آہستہ
ایک دوسرے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے ہیں
میں ان کے درمیان کھرا ہوں
عجیب سراسیمگی اور بے چینی سے
باری باری انہیں تکتا ہوں
چکی کے دو پاٹوں میں آئی ہوئی گندم
دو پہاڑوں کے درمیان آیا ہوا میں
پتہ نہیں میری زبان کس بے بسی کے درمیان آگئی ہے
اور سوچ
اور سمجھ
اور خواب
اور زندگی
ناکافی ہوا سانسیں اکھاڑ دیتی ہے
اور تیز ہوا بدن
مجھے اس سفاک درمیان سے نکالو
مجھے کنارے لگاؤ
فرحت عباس شاہ