وہ برسوں بعد اچانک ملا تو یاد آیا
ہیں اور بھی تو بہت بوجھ محملِ جاں پہ
پہاڑ سا کوئی دل سے ہلا تو یاد آیا
ہے تار تار انہیں جنگلوں میں پیراہن
جو ایک چاکِ تمنا سلا تو یاد آیا
ہمارے سر پہ بھی رُت رتجگوں کی آ پہنچی
گُلِ ملالِ جدائی کھِلا تو یاد آیا
ترے ہی دم سے منور ہے آج بھی ہستی
ترے غموں نے جو بخشی جلا تو یاد آیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)