وحشتوں کی اماوس میں محصور اور خوف کی قید میں

وحشتوں کی اماوس میں محصور اور خوف کی قید میں
ہم محبت کے مارے ہم اجڑے ہوئے اور بیمارِ دل
لکھو
محبت کے مارے بھی کیا ہیں
کبھی بند کمرے کی تنہائیوں میں
کبھی سرد تکیے کی بے مہر اور اجنبی گود میں منہ چھپائے
کبھی چاند راتوں میں
خالی چھتوں اور سنسان راہوں کی خاموشیوں میں بکھرتے
شکستوں، غضب ناک محرومیوں اور پسپائیوں کے صعوبت کدوں کا
عذابِ سفر جھیلتے
شاعری اور فسانوں کے بستر پہ حیراں نگاہیں جمائے
زمانے کی، لمحات کی اور خود اپنی سلگتی ہوئی ذات کی
وحشتوں کی اماوس میں محصور کوئی عجب اور گمنام ڈر جھیلتے ہیں
دلوں میں تمناؤں، خوابوں خیالوں کی قبریں لیے
اور بلکتی ہوئی بے قراری چھپائے
لہو میں مسلسل بسے دکھ سے گھبرا کے اور یاد سے ہار کے
نت نئی دوستی اور جھوٹی محبت کے صحراؤں میں
اور وفاؤں کے روشن چمکتے سرابوں کی دہلیز پر
زندگی ڈھونڈتے ہیں
ہواؤں سے خوشبوؤں کی بستیوں کا پتہ پوچھتے ہیں
لکھو
ہم محبت کے مارے۔۔ خود اپنی نگاہوں میں مجرم
ہم اجڑے ہوئے، منتشر، بے وفا، کھوکھلے اور بیمار دل
ہم نہ تیرے نہ میرے
نہ اس کے نہ اپنے
ہمیشہ ہمیشہ کے تکلیف دہ رتجگوں ک سیہ کھائیوں میں
پڑے اونگھتے ہیں
لکھو۔۔۔۔ ہم محبت کے مارے بھی کیا ہیں
لکھو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *