ہم مسکراتے رہتے ہیں
اپنے نیلے ہونٹوں سمیت
اور کھیلتے ہیں ہاتھوں کی پشتوں پر ابھری ہوئی رگوں کے ساتھ
گمان کے کھوکھلے اور جھوٹے رنگوں میں
ہم خوش ہیں اپنے مرجھائے ہوئے چہروں سے کہیں بہت دور
تپتی سلگتی گرمیوں میں سانسوں کی برف اندر کے موسموں کا پتہ دیتی ہے
ہم آنکھیں چرا جاتے ہیں
جہاں جہاں سے زمینیں پھٹ چکی ہیں
اور ہوائیں داغ دار ہو چکی ہیں
سارا قصور گھات میں چھپے بیٹھے کسی آسیب کا ہے
کمر پر ہاتھ رکھ کر چلنا فیشن اور لاٹھی پکڑنا آداب میں شامل ہے
اور سب سے زیادہ دلچسپ وہ موت ہے
جو اپنے معینہ وقت سے پہلے آ چکی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)