ورنہ ہم کو تھا کہاں ہار کا غم

ورنہ ہم کو تھا کہاں ہار کا غم
لگ گیا ہے ترے انکار کا غم
گھلتے جاتے ہو جو رفتہ رفتہ
کیسی بیماری ہے دلدار کا غم
ہائے وہ کچھ بھی نہ کہہ پانے کا دکھ
ہائے یہ صورتِ اظہار کا غم
ڈسنے لگتا ہے سرِ تنہائی
دل کو اکثر ترے ایثار کا غم
ورنہ ہم حوصلے والے ہیں بہت
ہے رلاتا دلِ بیمار کا غم
اتنا زہریلا کوئی درد نہیں
جتنا جاں لیوا ہے یہ پیار کا غم
تم مجھے پھر کوئی دھوکہ دو گے
بھول تو جاؤں میں اس بار کا غم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *