ہاتھ سے ہاتھ جھٹکتے رہتے
درد نے ڈال دیا رستے پر
ورنہ ہم یونہی بھٹکتے رہتے
وہ بھی خاموشی سے روتا رہتا
ہم بھی چپ چاپ سسکتے رہتے
شب کے اس پار جو رہتا سورج
کچھ ستارے تو چمکتے رہتے
شہر تھک ہار کے جب سو جاتا
دل کے ویرانے بلکتے رہتے
خوف کی شام جھپٹتی رہتی
کرب کے سائے لپکتے رہتے
دھوپ جس عیب کو عُریاں کرتی
ہم اسے رات سے ڈھکتے رہتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)