وطن

وطن
ہمیشہ
کبھی کبھار
رات کھانستی ہے
بوڑھا سکوت تلملا اٹھتا ہے
پڑوسی چونک جاتے ہیں
اور حیران ہوتے ہیں
کبھی کبھار چپ گھبرا جاتی ہے
اور بیمار پڑ جاتی ہے
شاموں نے جتنے قرض اٹھائے تھے
دنوں کو چکانے پڑ رہے ہیں
غریب دن دھوپ بیچتے پھرتے ہیں
گلی سڑک، بے بنیاد دھوپ
کبھی کبھار
ویرانی اٹھ کر چلنا شروع کر دیتی ہے
گلیاں اداس ہو جاتی ہیں
سڑکیں گھبرا جاتی ہیں
بازار پریشان ہو جاتے ہیں
اور خالی بھی
تا کہ بے رونقی بیچی جا سکے
شاید کوئی خرید ہی لے
یہاں کسی کا کیا پتہ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *