دل میں ٹھہر گیا ہے تو
جیسے صدیاں بیت گئیں
بیٹھے ترے خیالوں میں
اپنے آپ میں گم ہو کر
تجھ سے باتیں کرتے ہیں
اس سے ملنا ہو تو پھر
کوئی کام نہیں ہوتا
شہر کے اچھے لوگوں میں
اپنا نام نہیں ہوتا
ہم بھی شہر میں آئے ہیں
وہ بھی کاش یہیں ہوتا
آنکھیں میچی سختی سے
پھر بھی پھوٹ پڑا سوتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)