وہ آخری شام

وہ آخری شام
نئی رتوں کے نئے سفر میں
تمہیں اجازت ہے بھول جانا
ہزار سالوں پہ ثبت چاہت کی پوری تاریخ بھول جانا
مگر مِری جاں
سراب ماضی کے خواب آلود روز و شب کی وہ آخری شام یاد رکھنا
وہ آخری شام
جب تمہاری مری نگاہوں نے
ایک دوجے کے دل کے اندر اتر کے شفاف آئینوں میں
خود اپنے چہروں کے عکس دیکھے تو رو پڑے تھے
وہ آخری شام
جب مجھے تم نے یہ کہا تھا
کہ چاند دیکھو تو سرسراتی ہوا کے دل پہ مری
تمنا کے نام کوئی پیام لکھنا
وہ آخری شام یاد رکھنا
تری نگاہوں سے جب میں اپنی نگہ چھڑا کے
پلٹ رہا تھا
تو تم نے کچھ بھی نہیں کہا تھا
مگر ہوا میں نمی اچانک ہی بڑھ گئی تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *